Articles

خالی اسامیاں ، کرونا ، موبائل اور نتائج ۔۔۔۔

تحریر : فرحان عامر

گزشتہ کچھ دنوں سے نویں جماعت کے نتائج کو لے کر بڑی لے دے ہو رہی ہے کہیں مزاحیہ میمز بن رہے ہیں تو کہیں سکولوں کے آگے ڈھول بجائے جا رہے ہیں جب دو سال ان بچوں کو کرونا کی وجہ سے پورے کے پورے نمبر دئے جا رہے تھے ہم نے تب بھی واویلا کیا تھا کہ ایسا نہ کریں مستقبل میں اس کے بھی نتائج بھگتنے پڑیں گے ان بد ترین نتائج کی خیر وجوہات تو اور بھی کافی ہیں اب نویں کے نتائج کے بعد لیاقت پور کے ہائی سکول کے سارے ستایس فیل اور ایک جھنگ سٹلائٹ ٹاون ہائی سکول میں پینتالیس کے پینتالیس فیل ہوئے جو کافی مشہور ہوئے ہم سب نے دیکھا کہ رزلٹ کتنے فیصد رہا اور پنجاب میں نو لاکھ بچے کامیاب نہ ہو سکے اس طرح رحیم یار خان میں بھی ایک لاکھ بچوں میں سے بمشکل چالیس ہزار ہی پاس ہو سکے یاد رہے اس پرائیویٹ بھی شامل ہیں جبکہ تحقیق سے پتہ چلا کہ سرکاری سکولوں کے نتائج مایوس کن ہیں کسی جگہ تیس میں تین پاس اور کسی جگہ چالیس میں چار یا پانچ پاس اسی طرح لگ بھگ %63 سے زیادہ فیل ہوئے اس نتیجے کے بعد بہت ساری جگہوں پر ٹیکس گزاروں کو یہ مطالبہ کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا کہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کا این ٹی ایس کی طرح کا ٹیسٹ لیا جائے اگر وہ پاس ہو جائیں تو ٹھیک ورنہ انکو تیاری کروائیں اور محکمہ ان ٹیچرز کو محکمہ محنت کروائے بعض اساتذہ اتنی تنخواہ لے رہے ہیں کہ وہ اپنی انگلیوں پر تنخواہ گن نہیں سکتے اور رزلٹ صفر ہے اس تنخواہ میں تین نئے لائق اساتذہ بھرتی ہو سکتے ہیں جیسا کہ پرائیویٹ اداروں کے استاد بارہ ہزار دس ہزار میں اس سے اچھا رزلٹ دے رہے ہیں یہ تو تھیں وہ چیزیں جو سوشل میڈیا پر وائرل تھیں مگر میرا نہیں خیال کہ استاذہ کا کوئی بہت زیادہ قصور ہے کیونکہ سہولیات کا فقدان اور استادوں کی کمی اصل وجہ ہے جیسا کہ 2017 کے بعد ابھی تک ایک بھی بھرتی نہیں ہوا ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں اوپر جس اسکول کا ذکر کیا اس کے ایک استاد سے بات ہوئی تو اس نے کچھ یوں بتایا کہ "جناب اس سکول میں کل 1 ایس ایس ٹی ہے اور دوسرا جو انچارج ہیڈ ہے پچھلے 2 سال سے اس کا ایکسیڈینٹ ہے کھڑے نہیں ہو سکتا، صرف دفتری امور سر انجام دیتے ہیں پڑھاتے نہیں، یہاں سکیل 18 کی سینئیر ہیڈ کی سیٹ خالی پڑی ہے اپریل 2018 سے اور باقی فرحان صاحب اپ خود ماہر تعلیم ہیں خود بہتر جانتے ہیں ایک ایس ایس آرٹس کیا کر سکتا ہے جہاں ایک بھی سائنس ٹیچر نہیں ؟” یہ وہ سکول ہیں جن کا دو سال پہلے حکومت نے کریڈٹ لیا تھا کہ ہم نے ایک روپیہ بھی اضافی خرچہ کئے بغیر 14000 سکولوں کو ہائی کر دیا ہے لیکن حقیقت میں ان سکولوں میں ہائی حصے (نہم و دہم) کو پڑھانے کے لئے اساتذہ ہی موجود نہیں ہیں گورنمنٹ نے سختی کر کے ان سکولوں میں کلاسز تو لگوا دی اساتذہ نہیں دئیے۔ یہ ایک سکول نہیں ہے ہمارے ضلع میں ایسے 63 کے قریب سکول تو ہوں گے جن کو ہائی کا درجہ تو دیا گیا مگر نہ وہاں سائنس ٹیچر بھرتی کیے گئے نہ وہاں کسی قسم کی سائنس لیب کا وجود ہے اس کے ساتھ ایک اور بڑا مسلہ پنجاب بھر میں سرکاری سکولز میں تقریبا 30 فیصد صرف کمپیوٹر ٹیچرز کی پوسٹیں خالی ہیں 2017 کے بعد ایک بھی بھرتی نہیں کی گئی اور نہ ہی سولہ سال سے کمپیوٹر ٹیچر کو پروموشن دی گئی۔ پروموشن نہ ہونے کی وجہ سے ہائر سکینڈری سکولوں میں کمپیوٹر سائنس کے ایس ایس کی 80 فیصد کے قریب پوسٹیں خالی پڑی ہیں پنجاب میں آٹھ ہزار اسامیوں میں سے تین ہزار خالی پڑی ہیں اسی طرح ہیڈ کی بھی سیٹی خالی ہیں ۔جبکہ المیہ یہ ہے کہ ایک آئی ٹی ٹیچر ایک ہزار طلبہ کو پڑھانے پر مجبور ہے پچاس فیصد ایلیمنٹری سکول کمپیوٹر ٹیچر ای ایس ٹی کی سہولت سے ہی محروم ہیں جدت کے دور کی وجہ سے ہر روز کپمیوٹر کے طلبہ کی تعداد بڑھ رہی ہے۔حکومت پنجاب نے اگر فوری طور پرکمپیوٹر اساتذہ کی کمی اور پروموشن کا نہ ہونا بھی حالیہ نتائج میں کے ذمہ دار عوامل میں شامل ہیں طلباء کی غیر ضروری دلچسپیاں بھی مضر اثرات ڈال رہی ہیں معاشی مسائل تو ہر ہر جگہ ہی حائل ہیں اور کم خواندگی کی بنیادی وجہ ہے یہ امر تشویشناک ضرور ہے اس میں مایوسی کی بات نہیں ۔پاکستان کے سب سے بڑے امتحان سی ایس ایس میں بی نتائج حوصلہ افزا نہیں آتے ارباب اختیار سمیت اساتذہ طلباء اور والدین کو اپنا تعمیری کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بہترین جامع طویل المدتی عصری تقاضوں کے مطابق پالیسی بنانے کی ضرورت ہے اب ڈسٹرکٹ رحیم یار خان میں خراب نتائج کی وجہ جاننے کے لیے کمیٹی بنا دی گئی ہے جو کسی مذاق سے کم نہیں ایک تو نتیجہ پورے پنجاب کا ہی ایسا آیا ہے ایک سیاسی جماعت کے جلسے کی۔ وجہ سے شہر میں چھٹی کا ارباب اختیار کی جانب زبانی اعلان پرائیویٹ سکول ایسوسی ایشن کی طرف سے تمام سکولوں کو احکامات پھر محکمہ تعلیم کو ہوش آیا اور اپنے ہی آرڈرز کی تردید کرنی پڑی خدارا کوئی سنجیدہ اقدامات کریں یہاں کئی وجوہات کار فرما ہیں، کسی ایک وجہ کا تعین کرنا ممکن نہیں بہت سی وجوہات ہیں میرے خیال میں کچھ عرصہ پہلے میٹرک کے نتائج بھی اس سے ملتے جلتے ہی تھے اور ‏یہ ہے ہمارے “مقابلے کے امتحان” کا نتیجہ ، 17 ہزار نے امتحان دیا صرف 349 کامیاب ہوئے کامیابی کی شرح 2.02 فیصد رہی اور یونیسکو کی عالمی درجہ بندی کے مطابق تعلیم میں 120 رکن ممالک میں پاکستان کا 113 واں ہے اب اختتام ایک ہلکی پھلکی مسکراہٹ (کشت زعفران) سے کرتے ہیں جو ہمیں ایک والد کے اعتماد بشمول ہمارے نظام کی عکاسی کرتی ہے ” کسی بچے کا ایک دن بعد امتحان کا نتیجہ آنا تھا,اس کے ابا نے اسے اپنے پاس بلایا,اور جی بھر کر کُٹ لگاٸی۔ ” بچے کی والدہ نے بے سبب کُوٹنے کی وجہ پوچھی تو بڑے کانفیڈنس کے ساتھ بولے ” مجھے کل سویرے سویرے دو دن کے لیے کہیں جانا ہے”

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی چیک کریں۔
بند کریں
واپس اوپر کے بٹن پر