قصوروار کون

اولاد اللہ تعلیٰ کی طرف سے ایک خوبصورت نعمت ہوتی ہے۔جو بڑھاپے میں والدین کا سرمایا ہوتی ہے۔ جو اس نعمت سے محروم ہیں انہیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ والدین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کےلیے اپنی ہر خواہش کی قربانی تک سے گریز نہیں کرتے۔ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ہر قسم کی سہولیات مہیاء کرتے ہیں کہ ہمارا بچہ کسی سے پیچھے نہ رہ جائے یا احساسِ کمتری کا شکار نہ ہو جائے۔ ان سب کے لیے والدین دن رات اپنی ذات کی پرواہ کئیے بنا ان تھک محنت کرتے ہیں ۔اور ماں بھی ان کی پرورش میں کوئی کمی نہیں چھوڑتی۔ان سب قربانیوں کے عوض والدین اپنے بچوں سے کچھ امیدیں وابسطہ کر لیتے ہیں۔جو ان والدین کا حق بھی ہیں۔لیکن ان سب میں والدین کو یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ ان کا بچہ کوئی روبوٹ نہیں ہے اور نہ ہر بچہ ایک جیسا ہو سکتا ہے۔ ان کے اپنے شوق اپنے مقاصد ہوتے ہیں۔اپنے بچوں کا دوسرے محلے کے بچوں،دوست،رشتہ داروں کے بچوں سے موازنہ کسی صورت مناسب نہیں ہے۔ ہر فرد ایک الگ شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔14 ستمبر 2022ء کی شام کو باپ نے اپنے بیٹے کوہوم ورک نہ کرنے پر تیل چھڑک کر زندہ جلا دیا جیسے کوئینہ قابلِ معافی جرم سرزد ہوا ہو۔ جس کی تلافی شاید آگ میں جھلس کر تھی۔ ایک دن کا ہوم ورک نہ کرنا کیا اتنا بڑاجرم تھا۔ جو سب سزاوں سے سنگین سزا تھی۔ دراصل اگر گہرائی سے اس کے اسباب ڈھونڈھے جائیں تو نظریہ تعلیم میں خامی محسوس ہوتی ہے کیونکہ ہم تعلیم برائے معاش حاصل کر رہے ہیں ناکہ تعلیم برائے تربیت نظریہ تعلیم برائے معاش کی وجہ سےآج کل میرٹ اتنا زیادہ ہے کے معصوم سے بچے اس نام نہاد تعلیمی نظام میں جکڑ کر رہ گئے ہیں۔کیا ڈاکٹر،انجینیر،پائلٹ بننا ہی زندگی کا اصل مقصد ہے۔اس کے علاوہ باقی شعبے جس میں بچے کی اپنی دلچسپی ہو کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ پڑھائی سے ہٹ کر ایک بچہ اپنی نارمل زندگی کچھ لمحوں کے لیے نہیں جی سکتا۔جو ایک 12سالہ بچہ ہومورک نہ کرنے کی وجہ سے موت کے کھاٹ اتر چکا ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کس کو قصوروار ٹھرایا جائے؟شایدوہ استاد جس نے بچے کے مستقبل کی فکر میں اس کے والدین کو ہومورک نہ کرنے کی خبر پہنچائی۔یا شاید ہمارا معاشرہ جس کے معیار پر بچہ پورا نہ اتر سکا۔یا شاید ہمارا فرسودہ تعلیمی نظام جو ایک رٹہ سسٹم پر مشتمل ہے۔یا شاید اس کے اپنے والدین جو اپنے بچے کو ایک مشین سمجھ بیٹھے تھے۔ جن کی قوتِ برداشت ان کی عقل پر حاوی ہو چکی تھی۔جنہیں شاید خود کسی اچھے ماہرِنفسیات کی ضرورت تھی۔ ہم بچوں کی تعلیم پر بات تو کرتے ہیں پر ان کے والدین کو کون تعلیم دے گا۔ کون ان کو سمجھائے گا کہ اگر آپ کے بچوںسے کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اس کے پس پردہ اسباب دریافت کریں۔اور بچے کو پیار سے اس کا برابھلا سمجھائیں۔ مگر ہم سرپرست ہونے کے ناطے اپنے بچوں کو سمجھاتے کم اور حکم زیادہ چلاتے ہیں۔جس کے نتیجہ میں بچوں کا ذہنی سکون برباد ہوکر رہ جاتا ہےبچے منشیات اور بےراہروی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور بچے اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنے لگ جاتے ہیں۔ بلاشبہ والدین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کا سوچتے ہیں۔ لیکن والدین کو بھی چاہئے کے اپنے بچوں پر حکم چلانے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی بجائے پیار سے ان کے مسائل کا حل نکالیں۔ بڑے ہونے کے ناطے والدین،اساتذہ،حکومت اور معاشرہ اپنی ساری کوتاہوں کا الزام انمعصوم بچوں کے سر ڈال کر آرام سے بری ہو جاتے ہیں۔ کیا اچھے نمبرات ہی کسی کے ذہین ہونے کا پیمانہ ہے۔ بلاشبہ اس تیز رفتار دور میں یہ سب بھی اہم ہے لیکن کسی کی کُل صلاحیت کو اِس ترازو میں نہیں تولا جا سکتا۔اگر آپ کا بچہ آپ کے قائم کردہ تعلیمی میعار پر پورا نہیں اتر سکا تو شاید کسی اور میدان میں آگے نکل سکے۔یہاں پر ضرورت ہے پیار توجہ اور اچھی کیرئیر کونسلنگ کی نا کہ ایسی حولناک غیر اخلاقی اور غیر قانونی سزاؤں کی۔ جسے کوئی باشعورفرد یا معاشرہ کسی صورت اور کسی قیمت پر قبول نہیں کرتا۔
عظمٰی عباس چغتائی،رحیم یار خان۔